وادئ سندھ سے مراد
صرف 1936 میں وجود میں آنے والا صوبہ سندھ ہی نہیں ہے۔ بلکہ موجودہ پاکستان '
افغانستان کا مشرقی حصہ ' راجستھان اور گجرات کا مغربی حصہ ' وادئ سندھ میں شمار
ہوتا ہے۔ وادی سندھ ' ہمالیہ' قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں سے نکلنے والے
دریاؤں سے سیراب ہوتی ہے اور ان پہاڑی سلسلوں کے جنوب میں واقع ہے۔
دریائے سندھ اور
اسکے معاون دریاؤں جہلم ' چناب ' راوی ' ستلج اور کابل کے آس پاس کے میدانی علاقوں
کو عرف عام میں "وادئ سندھ" کہا جاتا ہے۔ جسکا علاقہ مغرب میں پاکستانی
صوبہ بلوچستان سے لے کر مشرق میں گنگا جمنا تہذیب کے حامل اتر پردیش کی سرحد
دریائے جمنا تک پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ شمال میں شمالی افغانستان کے علاقہ بدخشاں سے
لے کر جنوب میں بھارتی ریاست مہاراشٹر کی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔
زرخیز زمین '
مناسب پانی اور موزوں درجۂ حرارت کی وجہ سے وادی سندھ زراعت اور انسانی رہائش کے
لیے موزوں ہے۔ اسی وجہ سے انسان کی ابتدائی بستیاں وادی سندھ میں بسیں جو بالآخر
وادیؑ سندھ کی تہذیب "انڈس ویلی سولائزیشن" کہلائیں۔ پنجابی ' سماٹ '
ھندکو ' بروھی ' راجستھانی اورگجراتی قومیں "انڈس ویلی سولائزیشن" کی اصل
قومیں ہیں۔
وادی سندھ
کی یکسانیت ' زمان اور مکان میں ایک جیسی تھی ۔ ایک طرف یہ بلوچستان سے لیکر پنجاب
اور خیبر پختوں خواہ ' دوسری طرف راجستھان اور گجرات تک یکساں ہے۔ تیرہ سو سال کے عرصے پر
محیط یہ تہذیب جب تک زندہ رہی اس کی تفصیلات میں فرق نہیں آیا۔
وادیؑ سندھ
کی تہذیب (انڈس ویلی سولائزیشن) سے وابستہ شہر اور قصبوں تعداد میں سیکڑوں میں
تھی۔ صرف چولستان میں ڈاکٹر رفیق مغل نے تین سو تریسٹھ مدفون بستیاں ڈھونڈی ہیں ۔
جن کا تعلق اس تہذیب سے ہے ۔ اس کے علاوہ سرائے کھولا ، جھنگ ، بٹھیال ، وادی سوات
میں غالاگئی ، وادی گومل میں کے کئی مقامات ، بلوچستان کے علاقہ کچھی کے علاقے میں
مہر گڑھ میں اس تہذیب کے اثرات ملے ہیں ۔ بھارت میں دریائے گھگھر ) ہاکڑہ ( اور اس کے معاون دریاؤں کے طاس کا علاقہ
ان آثار سے پر ہے ۔ اس میں راجپوتانہ ، مشرقی پنجاب اور ہریانہ کے صوبے شامل ہیں ۔
یہاں جن مقامات سے اس تہذیب کے آثار ملے ہیں ان میں کالی بنگن ، سیسوال ، بانے
والی منڈا اور دوسرے بہت سی جگہیں شامل ہیں ۔ ساحل کے قریب لوتھل اور رنگ پور بڑے
شہر تھے ۔ ان کے علاوہ چھوٹی بستیاں بہت زیادہ ہیں ۔
وادیؑ سندھ
کی تہذیب (انڈس ویلی سولائزیشن) کے نمایاں شہر موہنجودڑو ، ہڑپہ کے علاوہ چنھودڑو
، ستکگن دڑو ، بالاکوٹ ، سوتکا کوہ ، ٹوچی ، مزینہ دمب ، سیاہ دمب ، جھائی ، علی
مراد ، گنویری والا اور معتدد شہر شامل ہیں ۔
وادیؑ سندھ
کی تہذیب (انڈس ویلی سولائزیشن) کا سب سے پہلے ملنے والا شہر ہڑپہ تھا اور اس وجہ
سے اسے ہڑپہ سویلائزیشن بھی کہا جاتا ہے ۔ دوسرا بڑا شہر موہنجودڑو تھا ۔ بعد میں
اب گنویری والا ملا ہے ۔ جو ہڑپہ سے بڑا شہر ہے ، لیکن ماہرین زیادہ اہمیت ہڑپہ
اور موہنجودڑو کو دی ۔
مادی ثقافت
کی جملہ تفصیلات میں سارا وسیع و عریض علاقہ ۔۔۔ جسے اب ماہرین آثار عظیم تر وادی
سندھ کہتے ہیں ۔۔ ۔ آپس میں مکمل یکسانیت رکھتا ہے ۔ مٹی کے برتن ہر جگہ ایک جیسے
ہی ہیں ۔ جو تھوک پیداوار کا نتیجہ ہیں ، مکانات طے شدہ معیاری نقشوں پر بنے ہیں
اور پختہ اینٹوں کے ہیں ۔ مہریں ایک طرح کے کھدے ہوئے مناظر سے مزین ہیں اور رسم
الخط سب جگہ ایک ہی ہے ۔ اوزان اور پیمائش کا ایک ہی معیاری نظام ہر جگہ رائج ہے ۔
ماہرین
عموماً وادی سندھ کی تہذیب کے لیے سلطنت کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔
لیکن شاید پگٹ اور ویلر نے سرسری طور پر انڈس ایمپائر کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ جب
کہ اکثر ماہرین کا رجحان یہ ہے اسے ایک سلطنت نہیں سمجھا جاسکتا ہے ۔ لیکن بعض
بنیادی حقائق ایسے ہیں جن کی کوئی دوسری تشریح ابھی تک ممکن نہیں ہوسکی ۔ وادی
سندھ کی صنعتی پیداوار کی زبر دست یکسانیت اس خیال کی گنجائش ضرور پیدا کرتی ہے کہ
ایک طاقت ور مرکزی حکومت موجود تھی ۔ جو سارے علاقے کو کنٹرول کررہی تھی ۔ اس کے
علاوہ پیداوار اور تقسیم کا ایک مربوط ایک مسوط سلسلہ تھا جس کو وہ کنٹرول کرتی
تھی ۔ اس کا یقینا ایک محصول چونگی اور شاہرہوں کی حفاظت کامربوط نظام تھا ۔ ہڑپہ
اور موہنجو دڑو ہم عصر شہر تھے ، جو یقناً جڑواں دارالحکومت تھے ۔ ان دونوں شہروں
کے اندر بلند و بالا قلعے تھے ۔ جو باقی ماندہ آبادی پر غالب نظر آتے تھے ۔ اس لئے
قیاس آرئی کی گنجائش تھی کہ یہ مرکزی حکومت کے دالحکومت تھے۔
ملک کے طول
و عرض میں مصنوعات اور دستکاریوں کی زبردست یکسانیت صرف مرکزی حکومت کے سخت قوانین
کا نتیجہ نہ تھی ، بلکہ سماج کے تجارتی قوانین بھی ۔۔۔ جنہیں مذہبی رنگ حاصل تھا
۔۔۔ یقینا بہت سخت ہوں گے ۔ جن پر حروف بحروف عمل ہوتا تھا ۔ ہر علاقے میں اوزان
کا یکساں تھے ۔ کانسی کی کلہاڑی کی بناوٹ اور بھالے کی شکل ایک سی تھی ۔ اینٹوں کا
سائز ، مکانوں کا نقشہ ، بڑی گلیوں کی ترتیب ، الغرض پورے شہر کی ٹاون پلانگ ایک
سی تھی ۔ اس پر مستزاد یہ کہ صدیوں تک پرانی عمارتوں پر نئی عمارتیں ہو بہو ویسی
کی ویسی بنتی رہیں ۔ ایک گھر کی خارجی چار دیواری کئی صدیوں تک نہیں بدلی تھی ۔ اس
کا مطلب ہے حکمران اور محکوم دونوں طبقات تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے ۔
کاریگر لوگ ذات پات کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے نسل درنسل ایک ہی کام کرتے چلے آرہے
تھے اور کچھ ایسا ہی حال اونچے طبقات کا تھا۔
وادیؑ سندھ
کی تہذیب (انڈس ویلی سولائزیشن) سنہ 3300 سے 1700 قبل مسیح تک قائم رہنے والی
انسان کی چند ابتدائی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ اسے ہڑپہ کی تہذیب بھی کہتے ہیں۔
ہڑپہ اور موئن جو دڑو اس کے اہم مراکز تھے۔ دریائے سواں کے کنارے بھی اس تہذيب کے
آثار ملے ہیں۔ اس تہذيب کے باسی پکی اینٹوں سے مکان بناتے تھے۔ ان کے پاس بیل
گاڑياں تھیں، وہ چرخے اور کھڈی سے کپڑا بنتے تھے، مٹی کے برتن بنانے کے ماہر تھے،
کسان، جولاہے، کمہار اور مستری وادیٔ سندھ کی تہذیب کے معمار تھے۔
سوتی کپڑا
کہ جسے انگریزی میں کاٹن کہتے ہیں وہ انہی کی ایجاد تھی کہ لفظ کاٹن انہی کے لفظ
کاتنا سے بنا ہے۔ شکر اور شطرنج دنیا کے لیے اس تہذیب کے انمول تحفے ہیں۔ وادیٔ
سندھ کی تہذیب کی دولت نے ہزاروں سال سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچا ہے۔
خیال کیا
جاتا تھا پاک و ہند میں تمذن کی بنیاد آریاؤں نے 1500 ق م میں ڈالی تھی ۔ اس سے
پہلے یہاں کے باشندے جنگلی اور تہذیب و تمذن سے کوسوں دور تھے ۔ مگر بعد کی
تحقیقات نے اس نظریے میں یک لخت تبدیلی پیدا کردی اور اس ملک کی تاریخ کو ڈیرھ
ہزار پیچھے کردیا ۔ ایک طرف موہنجودڑو اور ہڑپا کے آثار اور سندھ کی قدیم تہذیب کے
بارے میں جو معلومات ہوئیں ان سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ کی ہے کہ کہ آریوں کے
آنے سے بہت پہلے یہ ملک تہذیب و تمذن کا گہوارہ بن چکا تھا ۔
سنہ 1921 کا
واقع ہے کہ رائے بہادر دیا رام سہنی نے ہڑپا کے مقام پر نے قدیم تہذیب کے چند آثار
پائے ۔ اس کے ایک سال کے بعد اسی طرح کے آثار مسٹر آر ڈی بنرجی کو موہنجودڑو کی سر
زمین میں دستیاب ہوئے ۔ اس کی اطلاع ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کو ملی ۔ محکمہ کے
ڈائرکٹر جنرل سر جان مارشل نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں مقامات کی طرف
طوجہ دی ۔ چنانچہ رائے بہادر دیا رام سہنی ، ڈئرکٹر ارنسٹ میکے اور محکمہ اثریات
کے دیگر احکام کے تحت کھدائی کا کام شروع ہوا ۔ 1931 میں فنڈ کی کمی کی وجہ سے کام
روک دیا گیا ۔ اس اثنائ میں محکمہ نے دوسرے مقامات پر اثری تلاش شروع کی ۔ اس میں
بڑی کامیابی ہوئی اور پتہ چلا کہ یہ قدیم تہذیب موہنجودڑو اور ہڑپہ تک ہی محدود
نہیں ہے ۔ بلکہ اس کا سلسلہ صوبہ سندھ میں چنہودڑو ، جھوکر ، علی مراد اور آمری
اور صوبہ پنجاب میں روپر اور بلوچستان میں نال اور کلی کے مقام پر بھی قدیم تہذیب
کے آثار موجود ہیں ۔
ابھی ہم
متاخر حجری عہد سے گزرتے ہی سندھ کی وادی میں ہماری نظر تمذن کے ایسے آثاروں پر
پڑتی ہے کہ ہم ٹھٹھک کر رہ جاتے ہیں ۔ ہم ابھی اجتماعی زندگی کی بنیاد پڑنے ،
بستیاں بسنے ، صنعت میں کس قدر مشق و صفائی پیدا کرنے کا ذکر کر رہے تھے ۔ اب یک
بارگی ہمیں عالی شان شہر دیکھائی دیتے ہیں ۔ ان کے مکانات پختہ اور مظبوط ، دو دو
تین تین منزلہ اونچے ہیں ۔ ان میں سڑکیں ہیں ، بازار ہیں ۔ ان کے باشندوں کی زندگی
و رواج اور عادات سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔ یہ عجیب بات وادی سندھ کے
وہ آثار جو سب سے زیادہ گہرائی میں ہیں سب سے زیادہ ترقی کا پتہ دیتے ہیں ۔ یعنی
جب یہاں کے شہر پہلے پہل بنے تب یہاں کی تہذیب اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور بعد
میں اسے ذوال آتا رہا ۔ وادی سندھ کی تہذیب کی بے نقابی اور تشریح شاید بیسویں صدی
کا عظیم ترین عصریاتی واقعہ ہے ۔ کیوں کہ اس تہذیب کی وسعت اور معنویت کو 1922 میں
موہنجودڑو کی کھدائی سے پہلے سمجھا ہی نہ جاسکا ۔
وادی سندھ
کی تہذیب ارض پاکستان کی قبل از تاریخ دور کی سب سے شاندار چیز ہے۔ اس تہذیب کی
بہت سی خصوصایت ایسی ہیں جو صرف اس کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ ماضی میں اس تہذیب کے بارے
میں ماہرین کی رائے تھی کہ یہ مغربی ایشیائ سے اس سرزمین سے لائی گئی تھی اور
مغربی ایشائ کے تہذیبی عروج و ذوال کا تمتہ تھی۔ لیکن 1950 میں ڈاکٹر ایف اے خان
نے کوٹ ڈیجی کی کھدائی کی ۔ اس سے نئی چیزیں سامنے آئیں اور پرانے تصورات میں
تبدیلی واقع ہوئی ۔ کوٹ ڈیجی میں ہڑپہ کے پختہ دور سے بہت پہلے کی مدفون آبادی ملی۔ اس کی تہذیب کے زمانے کا تعین ریڈیو کاربن کے ذریعے کیا گیا تو پتہ چلا کہ یہ
آبادی ہڑپہ سے بھی 800 سال پرانی ثقافت ہے۔ اس کے بعد بے درپے کھدائیاں ہوئیں۔
جس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اس تہذیب کے سرچشمے اسی سر زمین میں تھے۔ یہ مقامی سماج کے ارتقائ کا لازمی نتیجہ تھی اور بیرونی اثرات جو بھی تھے وہ
ثانیوی اور کم اہم تھے۔ اس تہذیب کا پختہ زمانہ تو 2500 ق م سے لے کر 1700 ق م ہے۔ لیکن در حقیت اس کا تسلسل 3800 ق م تک نظر آتا ہے۔
No comments:
Post a Comment