Monday, 5 September 2016

پاکستان وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین پر قائم ھے۔

وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کی درجہ بندی وادئ سندھ کی تہذیب کے پنجابی خطے۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے سماٹ خطے۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے براھوی خطے۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے ھندکو خطے کے طور پر کی جاسکتی ھے۔

وادئ سندھ کی تہذیب کے اصل باشندے پنجابی ' سماٹ ' براھوی ' ھندکو ھیں۔ جو پاکستان کی آبادی کا 80 فیصد ھیں۔ جنہیں پاکستان کی 20 فیصد آبادی کی وجہ سے الجھن ' پریشانی اور بحران کا سامنا ھے۔ یہ 20 فیصد آبادی والے لوگ ھیں؛

1. افغانستان سے آنے والے جو اب پٹھان کہلواتے ھیں۔

2. کردستان سے آنے والے جو اب بلوچ کہلواتے ھیں۔

3. ھندوستان سے آنے والے جو اب مھاجر کہلواتے ھیں۔

پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی ھے۔ لہذا پنجابی قوم کا بنیادی فرض اور اخلاقی ذمہ داری ھے کہ؛

1. خیبر پختونخواہ میں ھندکو قوم کو سماجی ' معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط کرکے افغانی دراندازوں اور قبضہ گیروں کے سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط سے نجات دلوائے۔ جو اب خود کو پٹھان کہلواتے ھیں۔

2. بلوچستان میں بروھی قوم کو سماجی ' معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط کرکے کردستانی دراندازوں اور قبضہ گیروں کے سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط سے نجات دلوائے۔ جو اب خود کو بلوچ کہلواتے ھیں۔

3. سندھ میں سماٹ قوم کو سماجی ' معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط کرکے دیہی سندھ میں کردستانی دراندازوں اور قبضہ گیروں کے سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط سے نجات دلوائے۔ جو اب خود کو بلوچ کہلواتے ھیں اور شہری سندھ میں ھندوستانی دراندازوں اور قبضہ گیروں کے سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط سے نجات دلوائے۔ جو اب خود کو مھاجر کہلواتے ھیں۔

4. جنوبی پنجاب میں ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی ' ڈیرہ والی پنجابی کو سماجی ' معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط کرکے کردستانی دراندازوں اور قبضہ گیروں کے سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط سے نجات دلوائے۔ جو اب خود کو بلوچ کہلواتے ھیں۔

Saturday, 13 August 2016

وادی سندھ اور انگریز سرکار کی مہارت۔

دریائے سندھ اور اسکے معاون دریاؤں جہلم ' چناب ' راوی ' ستلج اور کابل کے آس پاس کے میدانی علاقوں کو عرف عام میں "وادئ سندھ" کہا جاتا ہے۔ جسکا علاقہ مغرب میں پاکستانی صوبہ بلوچستان سے لے کر مشرق میں گنگا جمنا تہذیب کے حامل اتر پردیش کی سرحد دریائے جمنا تک پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ شمال میں شمالی افغانستان کے علاقہ بدخشاں سے لے کر جنوب میں بھارتی ریاست مہاراشٹر کی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔

وادئ سندھ سے مراد صرف 1936 میں وجود میں آنے والا صوبہ سندھ ہی نہیں ہے۔ بلکہ موجودہ پاکستان ' افغانستان کا مشرقی حصہ ' راجستھان اور گجرات کا مغربی حصہ ' وادئ سندھ میں شمار ہوتا ہے۔ وادی سندھ ' ہمالیہ' قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں سے نکلنے والے دریاؤں سے سیراب ہوتی ہے اور ان پہاڑی سلسلوں کے جنوب میں واقع ہے۔

زرخیز زمین ' مناسب پانی اور موزوں درجۂ حرارت کی وجہ سے وادیٰ سندھ زراعت اور انسانی رہائش کے لیے موزوں ہے۔ اسی وجہ سے انسان کی ابتدائی بستیاں وادی سندھ میں بسیں جو بالآخر وادیؑ سندھ کی تہذیب "انڈس ویلی سولائزیشن" کہلائیں۔ پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' راجستھانی اورگجراتی قومیں "انڈس ویلی سولائزیشن" کی اصل قومیں ہیں۔

برصغیر پر مکمل برطانوی قبضے کے بعد انگریزوں کو خدشہ تھا کہ وادئ سندھ میں کسی بھی وقت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ وادئ سندھ برصغیر کے شمال مغرب میں واقع منفرد جغرافیائی ' تاریخی اور تہذیبی اہمیت کا حامل خطہ ہے۔ یہاں کے باسیوں نے ہمیشہ بیرونی جارحیت کے خلاف مزاحمت کی اور اسی مزاحمتی تناظر کے پیش نظرانگریزوں نے وسیع منصوبہ بندی کی اور سب سے اہم کام وادئ سندھ کی تہذیبی اساس پر کاری ضرب لگانے کا کیا۔

1843ء تک انگریزوں نے وادئ سندھ  کے جنوب کے تمام علاقوں پر قبضہ کرلیا اوران تمام علاقوں کو انتظامی طور پر بمبئی پریزیدینسی میں شامل کردیا۔ وادئ سندھ کو تقسیم کرنے اور متنازعہ بنانے کیلئے وادئ سندھ کا نام چرا کر وادئ سندھ کے اس چھوٹے سے حصے سے منسوب کردیا۔ وادئ سندھ کے جنوب میں الگ الگ تشخص رکھنے والے ان تمام علاقوں کو ایک ہی حکومت کی سپردگی میں دے کر ایک ہی نام سندھ سے مشتہر کرنا شروع کردیا۔ جس میں تالپور علاقہ سِرو ' بکھر وغیرہ ' ساحلی علاقہ کراچی اور راجپوتانہ ریاست تھر شامل تھی۔ آزاد ریاست خیرپور کو بھی اس نام نہاد سندھ کا ہی حصہ کہا گیا۔

انگریزوں نے وادئ سندھ کا نام ختم کرنے اور وادئ سندھ کے ہی اس جنوبی حصے کو بطور سندھ مشہور کرنے کیلئے سرکاری سرپرستی میں بہت سی کتب لکھوائیں۔ جن میں اس نئے ایجاد کردہ سندھ کو دنیا کا قدیم ترین خطہ ثابت کرنے کے لئے زمین آسمان کے قلابے ملائے گئے تاکہ نئی نسلوں کو وادئ سندھ کے متعلق گمراہ کیا جائے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ انگریز سرکار کی سرپرستی میں سندھ کی قدامت پر وہ لوگ کتابیں لکھ رہے تھے جن کا اپنا تعلق بلوچ اور عرب نسل کے قبضہ گیروں سے تھا۔

اس کے علاوہ انگریز حکومت نے ایک اور پراجیکٹ پر بھی کام کیا۔ وہ تھا سندھی زبان کی تیاری۔ اس سلسلے میں انگریزوں نے سرکاری وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت کام کیا اوراس کیلئے مہران کی بولی کو بطور خام مال منتخب کیا جسے مہرانی ' مہران جی بولی ' ساہتی اور دیگر کئی ناموں سے پکارا جاتا تھا۔ اس کچی بولی پر سندھی کا لیبل لگایا گیا۔ عربی رسم الخط کی بنیاد پر ایک رسم الخط ایجاد کروایا اور اس نئی زبان کیلئے گرائمر بھی مرتب کروائی۔ سندھی نامی اس نئی زبان کے فروغ کیلئے سرکاری آشیرباد پر کتابیں لکھوائیں اور کتابیں لکھنے والے ان مصنفین کو اعزازات اور انعامات سے نوازا جاتا تھا۔ انگریزوں نے اس نئی زبان سندھی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا۔

اس کے برعکس انگریز سرکار نے وادئ سندھ کے باقی علاقوں میں ایسی کوئی پُھرتی اور مہارت نہیں دکھائی بلکہ باقی تمام وادئ سندھ میں ہندوستان کی گنگا جمنا تہذیت والی زبان اُردو کو نافذ کردیا یہی ایک تضاد سب کچھ سمجھا دینے کیلئے کافی ہے۔

انگریزوں کا سندھ پراپیگنڈا کامیاب ہونے لگا اوراس پراپیگنڈے کے زیراثر برصغیر میں وادئ سندھ کے اس جنوبی حصے کو سندھ کہا جانے لگا اور قائد اعظم نے اپنے چودہ نکات میں اس علاقے کو سندھ کہا۔

انگریزوں کا سندھ پراپیگنڈے کی کامیابی کے بعد اگلا منصوبہ اسے صوبے کا درجہ دینے کا تھا۔ بالآخر انگریز سرکار نے اپنے سندھ پراپیگنڈے کی کامیابی اور تمام تر ہوم ورک مکمل ہوجانے کے بعد اس علاقے کو بمبئی پریزیڈینسی سے الگ کرکے یکم اپریل 1936ء کو ''سندھ'' کا لیبل لگا کر صوبہ بنادیا۔

انگریزوں نے یہ سارا اہتمام کسی مخصوص علاقے یا لوگوں کے مفاد میں نہیں بلکہ دنیا کی عظیم ترین تہذیب وادئ سندھ کی سالمیت ختم کرنے اور اسے متنازعہ بنانے کیلئے کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ علاقہ برطانوی قبضے سے پہلے نہ کبھی متحدہ خطے کی صورت میں موجود رہا اور نہ ہی اس علاقے کا نام سندھ تھا اور نہ ہی انگریز سرکار کی محنت سے پہلے کسی سندھی نامی زبان کا وجود تھا۔

محض 80 سال پہلے یکم اپریل 1936ء کو انگریزوں کے ہاتھوں پیدا ہونے والا یہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی (سندھ دھرتی ماتا) آج ہزاروں سال قدیم ہے۔ جی ہاں ! 80 سال پہلے وجود میں آنے والا اب ہزاروں سال قدیم "جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے"۔

Wednesday, 1 June 2016

Sapta Sindhu is the old name of Punjab.

The original Punjab region is now divided into several units:

1. West Punjab (now in Pakistan),
2. Area up to the eastern Afghanistan such as the Gandhara/Kandahar region,
3. The Indian states of Punjab, Haryana and Himachal Pradesh.
4. The Indian Union territory of Chandigarh.
5. The regions of Azad Kashmir and Jammu have also been historically associated with the Punjab.

The ancient names of Punjab are;

1. Panch-aal (Sanskrit)
2. Panch-Nadd (Sanskrit)
3. Paenta-Potamia (Greek)
4. Punj-ab (Sanskrit/Persian)

Other related names for "Punjab Area":

1. Sapt Sindhu (Sanskrit - land of seven rivers)
2. Vaheek-Desh (From word 'Vahoona', as in Hall Vahoona, i.e; to work in the field, that means the land of farmers)
3. Madra-Desh (Puranic name. The country north-west of Hindustan)
4. Tak-Desh (Perhaps related to the country around Taksila)

The “Sapta Sindhu” as the name Punjab region is mentioned in the Rig Veda. The “Sapta Sindhu” means the land of seven rivers.

The seven rivers of “Sapta Sindhu” region are;

1. Saraswati (thought to be the present day Ghaggar)
2. Satadru/Shutadri (Sutlej)
3. Vipasa (Beas)
4. Asikani, Chandrabhaga (Chenab)
5. Iravati (Ravi)
6. Vitasta/Vet (Jhelum)
7. Sindhu (Indus)

The region of Sapta Sindhu is also called as the region of Indus Valley Civilization.

The river Indus was the part of Sapta Sindhu and the region of Sindh was the part Indus Valley Civilization.

Those people claim themselves as Sindhi, Baloch and Pathan are an alien people on Land of Indus Valley Civilization.

Those people claim themselves as Sindhi in Sind are Arabic background and Baloch background people. They infiltrated and invaded Sind. In matter of fact, original inhabitants of Sind were Sammat. At present Sammats are under political, social and economic domination of Arabic background and Baloch background people.

Those people claim themselves as Baloch in Baluchistan are Kurdish background people. They infiltrated and invaded Baluchistan. In matter of fact, original inhabitants of Baluchistan were Brohi. At present Brohis are under political, social and economic domination of Kurdish background people.

Those people claim themselves as Pathan in KPK are Afghan background people. They infiltrated and invaded KPK. In matter of fact, original inhabitants of KPK were Hindko. At present Hindkos are under political, social and economic domination of Afghan background people.

Saturday, 31 October 2015

Indus Valley Civilization Ki Awaam Azad Ya Abhi Tak Ghulam?

Indus Valley Civilization k area par qaim Punjabi, Sammat, Hindko, Brahvi nations ki State, Pakistan ki languages, Punjabi, Sindhi, Hindko, Brahvi ko National Languages ka status day kar, Indus Valley Civilization k Culture ko promote karnay, Punjabi, Sindhi, Hindko, Brahvi Traditions ko adopt karnay k bajaay, Urdu ko National Language declare kar k, Gunga Jumna Culture ko promote kar k, UP, CP Traditions ko adopt karwa kar, aakhir Pakistan, Pakistan k Citizens aur Punjabi, Sammat, Hindko, Brahvi Awaam k sath kiya kya ja raha hy? Kon kar raha hy? Kyon kar raha hy?

State of Secular Punjabi Nation, on the Areas of Indus Valley Civilization.

The Telgu Nation, Tamil Nation, Kannada nation, Marathi Nation, Bhojpuri nation, Gujarati Nation, Rajasthani nation of India are not ready to live with Hindi-Urdu speaking UP-ites, the Gunga Jumna culture people of UP, CP called as Hindustani.

The Bengalis of India are not willing to live with Hindi-Urdu speaking, Gunga Jumna culture, people of UP, CP and they want to be the part of Bangladesh, as the Bangladesh has been already a State of Bengali Nation.

The Hindu Punjabis of India are in a struggle for their separate homeland as Haryanistan, because, they are not willing to live with Hindi-Urdu speaking, Gunga Jumna culture, people of UP, CP and they want to be the part of Punjabi Secular State, Greater Punjab. Greater Punjab will be created after the liberation of Haryanistan and Khalistan with Confederation of Haryanistan, Khalistan, and Pakistan.

The Sikh Punjabis of India are in a struggle for their separate homeland as Khalistan, because, they are not willing to live with Hindi-Urdu speaking, Gunga Jumna culture, people of UP, CP and they want to be the part of Punjabi Secular State, Greater Punjab. Greater Punjab will be created after the liberation of Khalistan and Haryanistan with a confederation of Pakistan, Khalistan, and Haryanistan.

The Pakistan is already a State of Punjabi Muslims, therefore, after creation of Greater Punjab with a confederation of Pakistan, Khalistan, and Haryanistan, a State of Secular Punjabi Nation, on the areas of Indus Valley Civilization, the Muslim Sindhi, Muslim Baloch, Muslim Pathan and Hindi-Urdu speaking UP-ite, the Gunga Jumna culture people of UP, CP called as Hindustani, will be the minorities of 85% Punjabi Secular State, The Greater Punjab.

Alien People on Land of Indus Valley Civilization.

Those people claim themselves as Sindhi, Baloch and Pathan are an alien people on Land of Indus Valley Civilization. Actually.....

Those people claim themselves as Sindhi in Sind are Arabic background and Baloch background people. They infiltrated and invaded Sind. Whereas, in a matter of fact, original inhabitants of Sind were Sammat. At present Sammats are under the political, social and economic domination of Arabic background and Baloch background people.

Those people claim themselves as Baloch in Baluchistan are Kurdish background people. They infiltrated and invaded Baluchistan. Whereas, in a matter of fact, original inhabitants of Baluchistan were Brohi. At present Brohis are under the political, social and economic domination of Kurdish background people.

Those people claim themselves as Pathan in KPK are Afghan background people. They infiltrated and invaded KPK. Whereas, in a matter of fact, original inhabitants of KPK were Hindko. At present Hindkos are under the political, social and economic domination of Afghan background people.

Thursday, 29 October 2015

صرف موجودہ سندھ ھی وادئ سندھ (انڈس ویلی سولائزیشن) نہیں تھی۔

وادئ سندھ سے مراد صرف 1936 میں وجود میں آنے والا صوبہ سندھ ہی نہیں ہے۔ بلکہ موجودہ پاکستان ' افغانستان کا مشرقی حصہ ' راجستھان اور گجرات کا مغربی حصہ ' وادئ سندھ میں شمار ہوتا ہے۔ وادی سندھ ' ہمالیہ' قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں سے نکلنے والے دریاؤں سے سیراب ہوتی ہے اور ان پہاڑی سلسلوں کے جنوب میں واقع ہے۔

دریائے سندھ اور اسکے معاون دریاؤں جہلم ' چناب ' راوی ' ستلج اور کابل کے آس پاس کے میدانی علاقوں کو عرف عام میں "وادئ سندھ" کہا جاتا ہے۔ جسکا علاقہ مغرب میں پاکستانی صوبہ بلوچستان سے لے کر مشرق میں گنگا جمنا تہذیب کے حامل اتر پردیش کی سرحد دریائے جمنا تک پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ شمال میں شمالی افغانستان کے علاقہ بدخشاں سے لے کر جنوب میں بھارتی ریاست مہاراشٹر کی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔

زرخیز زمین ' مناسب پانی اور موزوں درجۂ حرارت کی وجہ سے وادی سندھ زراعت اور انسانی رہائش کے لیے موزوں ہے۔ اسی وجہ سے انسان کی ابتدائی بستیاں وادی سندھ میں بسیں جو بالآخر وادیؑ سندھ کی تہذیب "انڈس ویلی سولائزیشن" کہلائیں۔ پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' راجستھانی اورگجراتی قومیں "انڈس ویلی سولائزیشن" کی اصل قومیں ہیں۔

 وادی سندھ کی یکسانیت ' زمان اور مکان میں ایک جیسی تھی ۔ ایک طرف یہ بلوچستان سے لیکر پنجاب اور خیبر پختوں خواہ ' دوسری طرف راجستھان  اور گجرات تک یکساں ہے۔ تیرہ سو سال کے عرصے پر محیط یہ تہذیب جب تک زندہ رہی اس کی تفصیلات میں فرق نہیں آیا۔

 وادیؑ سندھ کی تہذیب (انڈس ویلی سولائزیشن) سے وابستہ شہر اور قصبوں تعداد میں سیکڑوں میں تھی۔ صرف چولستان میں ڈاکٹر رفیق مغل نے تین سو تریسٹھ مدفون بستیاں ڈھونڈی ہیں ۔ جن کا تعلق اس تہذیب سے ہے ۔ اس کے علاوہ سرائے کھولا ، جھنگ ، بٹھیال ، وادی سوات میں غالاگئی ، وادی گومل میں کے کئی مقامات ، بلوچستان کے علاقہ کچھی کے علاقے میں مہر گڑھ میں اس تہذیب کے اثرات ملے ہیں ۔ بھارت میں دریائے گھگھر ) ہاکڑہ ( اور اس کے معاون دریاؤں کے طاس کا علاقہ ان آثار سے پر ہے ۔ اس میں راجپوتانہ ، مشرقی پنجاب اور ہریانہ کے صوبے شامل ہیں ۔ یہاں جن مقامات سے اس تہذیب کے آثار ملے ہیں ان میں کالی بنگن ، سیسوال ، بانے والی منڈا اور دوسرے بہت سی جگہیں شامل ہیں ۔ ساحل کے قریب لوتھل اور رنگ پور بڑے شہر تھے ۔ ان کے علاوہ چھوٹی بستیاں بہت زیادہ ہیں ۔

 وادیؑ سندھ کی تہذیب (انڈس ویلی سولائزیشن) کے نمایاں شہر موہنجودڑو ، ہڑپہ کے علاوہ چنھودڑو ، ستکگن دڑو ، بالاکوٹ ، سوتکا کوہ ، ٹوچی ، مزینہ دمب ، سیاہ دمب ، جھائی ، علی مراد ، گنویری والا اور معتدد شہر شامل ہیں ۔

 وادیؑ سندھ کی تہذیب (انڈس ویلی سولائزیشن) کا سب سے پہلے ملنے والا شہر ہڑپہ تھا اور اس وجہ سے اسے ہڑپہ سویلائزیشن بھی کہا جاتا ہے ۔ دوسرا بڑا شہر موہنجودڑو تھا ۔ بعد میں اب گنویری والا ملا ہے ۔ جو ہڑپہ سے بڑا شہر ہے ، لیکن ماہرین زیادہ اہمیت ہڑپہ اور موہنجودڑو کو دی ۔

 مادی ثقافت کی جملہ تفصیلات میں سارا وسیع و عریض علاقہ ۔۔۔ جسے اب ماہرین آثار عظیم تر وادی سندھ کہتے ہیں ۔۔ ۔ آپس میں مکمل یکسانیت رکھتا ہے ۔ مٹی کے برتن ہر جگہ ایک جیسے ہی ہیں ۔ جو تھوک پیداوار کا نتیجہ ہیں ، مکانات طے شدہ معیاری نقشوں پر بنے ہیں اور پختہ اینٹوں کے ہیں ۔ مہریں ایک طرح کے کھدے ہوئے مناظر سے مزین ہیں اور رسم الخط سب جگہ ایک ہی ہے ۔ اوزان اور پیمائش کا ایک ہی معیاری نظام ہر جگہ رائج ہے ۔

 ماہرین عموماً وادی سندھ کی تہذیب کے لیے سلطنت کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ لیکن شاید پگٹ اور ویلر نے سرسری طور پر انڈس ایمپائر کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ جب کہ اکثر ماہرین کا رجحان یہ ہے اسے ایک سلطنت نہیں سمجھا جاسکتا ہے ۔ لیکن بعض بنیادی حقائق ایسے ہیں جن کی کوئی دوسری تشریح ابھی تک ممکن نہیں ہوسکی ۔ وادی سندھ کی صنعتی پیداوار کی زبر دست یکسانیت اس خیال کی گنجائش ضرور پیدا کرتی ہے کہ ایک طاقت ور مرکزی حکومت موجود تھی ۔ جو سارے علاقے کو کنٹرول کررہی تھی ۔ اس کے علاوہ پیداوار اور تقسیم کا ایک مربوط ایک مسوط سلسلہ تھا جس کو وہ کنٹرول کرتی تھی ۔ اس کا یقینا ایک محصول چونگی اور شاہرہوں کی حفاظت کامربوط نظام تھا ۔ ہڑپہ اور موہنجو دڑو ہم عصر شہر تھے ، جو یقناً جڑواں دارالحکومت تھے ۔ ان دونوں شہروں کے اندر بلند و بالا قلعے تھے ۔ جو باقی ماندہ آبادی پر غالب نظر آتے تھے ۔ اس لئے قیاس آرئی کی گنجائش تھی کہ یہ مرکزی حکومت کے دالحکومت تھے۔

 ملک کے طول و عرض میں مصنوعات اور دستکاریوں کی زبردست یکسانیت صرف مرکزی حکومت کے سخت قوانین کا نتیجہ نہ تھی ، بلکہ سماج کے تجارتی قوانین بھی ۔۔۔ جنہیں مذہبی رنگ حاصل تھا ۔۔۔ یقینا بہت سخت ہوں گے ۔ جن پر حروف بحروف عمل ہوتا تھا ۔ ہر علاقے میں اوزان کا یکساں تھے ۔ کانسی کی کلہاڑی کی بناوٹ اور بھالے کی شکل ایک سی تھی ۔ اینٹوں کا سائز ، مکانوں کا نقشہ ، بڑی گلیوں کی ترتیب ، الغرض پورے شہر کی ٹاون پلانگ ایک سی تھی ۔ اس پر مستزاد یہ کہ صدیوں تک پرانی عمارتوں پر نئی عمارتیں ہو بہو ویسی کی ویسی بنتی رہیں ۔ ایک گھر کی خارجی چار دیواری کئی صدیوں تک نہیں بدلی تھی ۔ اس کا مطلب ہے حکمران اور محکوم دونوں طبقات تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے ۔ کاریگر لوگ ذات پات کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے نسل درنسل ایک ہی کام کرتے چلے آرہے تھے اور کچھ ایسا ہی حال اونچے طبقات کا تھا۔

 وادیؑ سندھ کی تہذیب (انڈس ویلی سولائزیشن) سنہ 3300 سے 1700 قبل مسیح تک قائم رہنے والی انسان کی چند ابتدائی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ اسے ہڑپہ کی تہذیب بھی کہتے ہیں۔ ہڑپہ اور موئن جو دڑو اس کے اہم مراکز تھے۔ دریائے سواں کے کنارے بھی اس تہذيب کے آثار ملے ہیں۔ اس تہذيب کے باسی پکی اینٹوں سے مکان بناتے تھے۔ ان کے پاس بیل گاڑياں تھیں، وہ چرخے اور کھڈی سے کپڑا بنتے تھے، مٹی کے برتن بنانے کے ماہر تھے، کسان، جولاہے، کمہار اور مستری وادیٔ سندھ کی تہذیب کے معمار تھے۔

 سوتی کپڑا کہ جسے انگریزی میں کاٹن کہتے ہیں وہ انہی کی ایجاد تھی کہ لفظ کاٹن انہی کے لفظ کاتنا سے بنا ہے۔ شکر اور شطرنج دنیا کے لیے اس تہذیب کے انمول تحفے ہیں۔ وادیٔ سندھ کی تہذیب کی دولت نے ہزاروں سال سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچا ہے۔

 خیال کیا جاتا تھا پاک و ہند میں تمذن کی بنیاد آریاؤں نے 1500 ق م میں ڈالی تھی ۔ اس سے پہلے یہاں کے باشندے جنگلی اور تہذیب و تمذن سے کوسوں دور تھے ۔ مگر بعد کی تحقیقات نے اس نظریے میں یک لخت تبدیلی پیدا کردی اور اس ملک کی تاریخ کو ڈیرھ ہزار پیچھے کردیا ۔ ایک طرف موہنجودڑو اور ہڑپا کے آثار اور سندھ کی قدیم تہذیب کے بارے میں جو معلومات ہوئیں ان سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ کی ہے کہ کہ آریوں کے آنے سے بہت پہلے یہ ملک تہذیب و تمذن کا گہوارہ بن چکا تھا ۔

 سنہ 1921 کا واقع ہے کہ رائے بہادر دیا رام سہنی نے ہڑپا کے مقام پر نے قدیم تہذیب کے چند آثار پائے ۔ اس کے ایک سال کے بعد اسی طرح کے آثار مسٹر آر ڈی بنرجی کو موہنجودڑو کی سر زمین میں دستیاب ہوئے ۔ اس کی اطلاع ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کو ملی ۔ محکمہ کے ڈائرکٹر جنرل سر جان مارشل نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں مقامات کی طرف طوجہ دی ۔ چنانچہ رائے بہادر دیا رام سہنی ، ڈئرکٹر ارنسٹ میکے اور محکمہ اثریات کے دیگر احکام کے تحت کھدائی کا کام شروع ہوا ۔ 1931 میں فنڈ کی کمی کی وجہ سے کام روک دیا گیا ۔ اس اثنائ میں محکمہ نے دوسرے مقامات پر اثری تلاش شروع کی ۔ اس میں بڑی کامیابی ہوئی اور پتہ چلا کہ یہ قدیم تہذیب موہنجودڑو اور ہڑپہ تک ہی محدود نہیں ہے ۔ بلکہ اس کا سلسلہ صوبہ سندھ میں چنہودڑو ، جھوکر ، علی مراد اور آمری اور صوبہ پنجاب میں روپر اور بلوچستان میں نال اور کلی کے مقام پر بھی قدیم تہذیب کے آثار موجود ہیں ۔

 ابھی ہم متاخر حجری عہد سے گزرتے ہی سندھ کی وادی میں ہماری نظر تمذن کے ایسے آثاروں پر پڑتی ہے کہ ہم ٹھٹھک کر رہ جاتے ہیں ۔ ہم ابھی اجتماعی زندگی کی بنیاد پڑنے ، بستیاں بسنے ، صنعت میں کس قدر مشق و صفائی پیدا کرنے کا ذکر کر رہے تھے ۔ اب یک بارگی ہمیں عالی شان شہر دیکھائی دیتے ہیں ۔ ان کے مکانات پختہ اور مظبوط ، دو دو تین تین منزلہ اونچے ہیں ۔ ان میں سڑکیں ہیں ، بازار ہیں ۔ ان کے باشندوں کی زندگی و رواج اور عادات سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔ یہ عجیب بات وادی سندھ کے وہ آثار جو سب سے زیادہ گہرائی میں ہیں سب سے زیادہ ترقی کا پتہ دیتے ہیں ۔ یعنی جب یہاں کے شہر پہلے پہل بنے تب یہاں کی تہذیب اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور بعد میں اسے ذوال آتا رہا ۔ وادی سندھ کی تہذیب کی بے نقابی اور تشریح شاید بیسویں صدی کا عظیم ترین عصریاتی واقعہ ہے ۔ کیوں کہ اس تہذیب کی وسعت اور معنویت کو 1922 میں موہنجودڑو کی کھدائی سے پہلے سمجھا ہی نہ جاسکا ۔

 وادی سندھ کی تہذیب ارض پاکستان کی قبل از تاریخ دور کی سب سے شاندار چیز ہے۔ اس تہذیب کی بہت سی خصوصایت ایسی ہیں جو صرف اس کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ ماضی میں اس تہذیب کے بارے میں ماہرین کی رائے تھی کہ یہ مغربی ایشیائ سے اس سرزمین سے لائی گئی تھی اور مغربی ایشائ کے تہذیبی عروج و ذوال کا تمتہ تھی۔ لیکن 1950 میں ڈاکٹر ایف اے خان نے کوٹ ڈیجی کی کھدائی کی ۔ اس سے نئی چیزیں سامنے آئیں اور پرانے تصورات میں تبدیلی واقع ہوئی ۔ کوٹ ڈیجی میں ہڑپہ کے پختہ دور سے بہت پہلے کی مدفون آبادی ملی۔ اس کی تہذیب کے زمانے کا تعین ریڈیو کاربن کے ذریعے کیا گیا تو پتہ چلا کہ یہ آبادی ہڑپہ سے بھی 800 سال پرانی ثقافت ہے۔ اس کے بعد بے درپے کھدائیاں ہوئیں۔ جس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اس تہذیب کے سرچشمے اسی سر زمین میں تھے۔ یہ مقامی سماج کے ارتقائ کا لازمی نتیجہ تھی اور بیرونی اثرات جو بھی تھے وہ ثانیوی اور کم اہم تھے۔ اس تہذیب کا پختہ زمانہ تو 2500 ق م سے لے کر 1700 ق م ہے۔ لیکن در حقیت اس کا تسلسل 3800 ق م تک نظر آتا ہے۔